غلط فیصلہ خوفناک ہو سکتا ہے تخلیقِ پاکستان سے پہلے، صدیوں سے برصغیر پاک و ہند میں آباد مسلمانوں کے دل ہمیشہ مشرق کی سمت پھیلی ہوئی وسیع و عریض مسلم اُمّہ کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ حرمِ کعبہ اور دیارِ نبویؐ جس کا مرکزومحور تھا اور "نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر" جس کا جغرافیہ۔ ہماری تعداد ہندوئوں کے مقابلے میں ہمیشہ قلیل رہی، مگر انگریز کی آمد سے پہلے اور اس آمد کے بعد کے ڈیڑھ سو سالوں میں بھی ہماری تہذیبی چھاپ پورے ہندوستان پر چھائی رہی۔ اندازہ لگائیں کہ 1206ء میں جب قطب الدین ایبک نے اپنی حکومت یہاں قائم کی تھی تو اس وقت مسلمانوں کی تعداد چند لاکھ بھی نہ ہو گی اور وہ بھی ایسے جو وسطی ایشیا سے فاتحین کے ساتھ یہاں آ کر آباد ہوتے آئے تھے۔ یہ تعداد 1941ء کی مردم شماری کے وقت 8.9 کروڑ تک جا پہنچی۔ پورے ہندوستان میں 39 کروڑ لوگ آباد تھے اور مسلمانوں کا تناسب صرف 22.8 فیصد تھا، جبکہ 75 فیصد ہندو تھے اور تین فیصد باقی اقلیتیں۔ لیکن تہذیبی چھاپ کی برتری کا یہ عالم تھا کہ کھانوں میں بریانی، پلائو، نہاری، کباب، لباس میں شلوار قمیض، اچکن، ٹوپی، شیروانی، لہنگے، غرارے، تنگ پاجامے، اصن...
Comments
Post a Comment